تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
یہ خبر جب حکومتی پریس ریلیز کے انداز میں لکھی گئی تو بظاہر لگتا ہے جیسے پنجاب حکومت نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گاؤں بچا لئے اور سیلاب کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو گئی۔ لیکن حقیقت کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا، کیونکہ یہ کہانی حقیقت سے زیادہ فلمی لگتی ہے۔
پریس ریلیز میں دعویٰ ہے کہ "درجن بھر گاؤں بچا لئے گئے، سینکڑوں جانیں محفوظ ہو گئیں، روزگار سلامت رہا۔” لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت اتنی ہی کارگر اور بروقت تھی تو پھر لاہور کی سب سے اونچی اونچی سوسائٹیاں کیوں نہ بچ سکیں؟ علیم خان کی پارک ویو سوسائٹی جہاں بڑے بڑے بند باندھے گئے، حکومتی افسران بھی پہنچے، وہی پارک ویو سیلابی ریلے کے سامنے ہاتھ جوڑ بیٹھی۔ تو پھر کیا یہ معجزہ صرف "چند منتخب گاؤں” تک محدود تھا یا پھر یہ سب محض کیمروں کے سامنے دکھائی جانے والی کارکردگی تھی؟
اصل المیہ یہ ہے کہ عوام کو دکھایا کچھ اور جاتا ہے، بتایا کچھ اور جاتا ہے، اور ہوتا بالکل الٹ ہے۔ جن دیہات کے نام لے کر دعوے کئے گئے، وہاں کے لوگ آج بھی کچے مکانوں میں ٹپکتے چھتوں تلے بیٹھے ہیں، زمینیں پانی میں ڈوبی ہیں، روزگار کا جنازہ نکل چکا ہے۔ لیکن اخبارات میں تصویریں، سرکاری چینلز پر بیانات اور وزراء کی پریس کانفرنسز یہ تاثر دیتی ہیں کہ "پنجاب حکومت نے کمال کر دکھایا”۔
اہلِ علاقہ کے "شکریہ کے بیان” بھی اتنے ہی سچے ہیں جتنے بجٹ تقریر کے وعدے۔ جنہیں اپنا گھر اور کھیت بہتے پانی کے ساتھ جاتا نظر آ رہا ہو، وہ کس منہ سے شکریہ ادا کرے گا؟ یہ شکریہ زیادہ تر سرکاری مائیکروفون اور کیمرے کی بدولت ریکارڈ کروایا جاتا ہے، عوام کے دل سے نہیں۔
یوں لگتا ہے کہ سیلاب سے زیادہ خطرناک یہ "سیاسی فوٹو سیشن” ہے، جو ہر بار عوام کی لاشوں اور ویران گھروں پر کھڑے ہو کر کئے جاتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی بروقت ہوتی تو پارک ویو سے لے کر چھوٹے گاؤں تک سب محفوظ رہتے، نہ کہ صرف پریس ریلیز میں۔
حکومت کے دعوے کاغذ پر ہیں، حقیقت میں عوام آج بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔


