تحریر : اسد مرزا
آڈیو سننے کیلئے لنک پر کلک کریں
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور شہر میں انسان انصاف کے لیے دربدر پھرتے ہیں، تھانے کچہری کے چکر کاٹتے ہیں مگر پولیس کی توجہ اب کہیں اور ہے۔ اب ان کے روزنامچے میں ڈاکے، قتل اور چوری کی جگہ "کتے کی تلاش” بھی شامل ہو گئی ہے۔ جی ہاں، جیل روڈ کی ایک خاتون نے گلی کے کتے سے ایسی محبت دکھائی ہے کہ کتا گم ہونے پر کھانا پینا چھوڑ دیا، نیندیں حرام کر لیں اور پولیس کو بھی متحرک کر دیا۔ سب انسپکٹر صاحب کی تازہ آڈیو میں انکشاف ہوا کہ خاتون نے ڈاکٹر کے ڈرائیور کو پیشکش کی: "ارشد اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر کتے کو ڈھونڈے، باقی تنخواہ میں خود ادا کروں گی”۔ یہ پیشکش اتنی "محبت بھری” تھی کہ بیچارہ ڈرائیور بھی حیرت زدہ ہو کر کتے کی تلاش پر نکل کھڑا ہوا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری پولیس واقعی عوام کو انصاف دینے کے بجائے کتوں کے پیچھے دوڑنے کے لیے رہ گئی ہے؟ یا پھر یہ بھی کوئی نئی "کمیونٹی پولیسنگ” کا ماڈل ہے جس میں گلی محلے کے جانور بھی محفوظ رہیں گے؟
دوسری طرف شہر بھر میں تقریباً 60 ہزار آوارہ کتے گھوم پھر رہے ہیں۔ کنوینئر پبلک ایڈ کمیٹی جماعت اسلامی، قیصر شریف نے درست کہا کہ حکومت عوام کو ان کتوں سے تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ یہی نہیں، حالیہ دنوں میں الخدمت فاؤنڈیشن کا ایک نوجوان رضاکار حامد بن اسلم باؤلے کتے کے کاٹنے سے زخمی ہوا اور کئی دن اسپتال میں زیرِ علاج رہا۔ شکر ہے وہ صحت یاب ہوگیا، مگر یہ واقعہ اس سوال کو مزید تلخ بنا دیتا ہے: آخر شہریوں کو آوارہ کتوں کے رحم و کرم پر کب تک چھوڑا جائے گا؟
طنزیہ مگر کڑوی حقیقت یہ ہے کہ لاہور میں ایک طرف انسان انصاف کے لیے روتے ہیں اور دوسری طرف پولیس کتے ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔ عوام کے خون بہانے والوں کو پکڑنے میں ادارے بے بس ہیں لیکن کتا گم ہو جائے تو سب حرکت میں آ جاتے ہیں۔
آخر اس شہر میں زیادہ قیمتی کون ہے؟ انسان یا کتا؟


